Advertisement

Responsive Advertisement

An Architect's Review of Javed Chaudhry's Column "Masjidon se"

A dear friend pointed an article that I had never read before. The ideas given there just tickled me enough to get my pen running. No hard feelings, and no harm intended. You can find The original column here . It will be helpful to keep both compositions parallel on your screens.

And please do read the original column first to completely understand what I wrote. You can freely disagree to what I said. I apologize in advance if anyone finds anything hurtful in my review.

جاوید چوہدری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ایک کالم تحریر کیا ھے۔ کالم کا عنوان ھے “مسجدوں سے“۔ 

کالم کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔

مسجد گندی‘ لوگ گندے‘ مولوی صاحب سخت مزاج۔۔۔ لیکن جاوید صاحب چپ چاپ‘ نفیس اور وقت کے پابند۔ نمازیوں نے نماز کے بعد جوتوں سے فٹبال کھیلی‘ اور مخالف کھلاڑیوں کو کہنیاں بھی ماریں۔غالباً “قہقہہ“ جاوید صاھب کی تحریروں میں جزبات کا عروج ھے۔ فٹبال کھیلنے والوں نے “قہقہے“ بھی لگاےَ۔ یعنی حد ہی کر دی۔

اس منظر کشی کے بعد تاریخ اور جدت‘ دونوں کو مدِ نظر رکھتے ھوےَ مفید مشورے دیے ہیں۔ مخیر حضرات اپنی خیر منا لیں۔

جاوید صاھب کے مطابق‘ آج کے وضو خانوں اور استنجا خانوں کا ڈیزائن پانچ سو سال پرانا ھے‘ مجھے اِن سے اختلاف ھے‘ کیونکہ لگ بھگ ١٥٠٠ عیسوی میں پانی کی ترسیل اور نکاسی کا ایسا سلسلہ نہیں تھا‘ جیسا آج ھے۔ ماہرین میری اصلاح کر دیں‘ اگر میں غلط ھوں  تو۔

انکے مطابق‘ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں آرکیٹیکٹس موجود ہیں۔ جاوید صاحب !ایک لاکھ میں پانچ صفر ہوتے ھیں ‘ یا یوں کہہ لیں کہ ایک لاکھ میں ١٠٠ ھزار ھوتے ہیں۔ کبھی آئیں نا‘ آرکیٹیکٹس کی کاؤنسل۔۔۔

 تعمیر‘ دیکھ بھال‘ ملازم‘ بل‘ صفائ کی برقی مشینیں‘ سب مخیر حضرات سنبھالیں۔

ایک انتہائ دلچسپ تجویز دی ہے‘ اور وہ ہے۔۔۔ سمارٹ تولیےَ یا آٹومیٹک تولیےَ۔۔۔ یہ تولیےَ “مخیر حضرات“ فراہم کریں۔ عوام اپنے ہاتھ‘ منہ اور پاؤں۔۔۔ جی جی‘ دوبارہ پڑھ لیں‘ پاؤں بھی تولیےَ سے پونچھ لیں۔ شام کو تولیےَ نہانے چلے جائیں‘ صبح نہا کے خود ہی واپس آ جا
ئیں‘ اور تولیوں کے گرم حمام کا بِل “مخیر حضرات“ دے دیں۔

 ویسے میں بھی حیران ہوں یہ خیال “مخیر حضرات“ کو پہلے کیوں نہیں آیا؟ تولیوں پر باقاعدہ ریسرچ ہونی چاہیےَ۔ سمارٹ ڈیوائسز کا دور ہے‘ تو سمارٹ تولیےَ کیوں نہیں؟

ایک انتہائ سنجیدہ تجویز یہ دی ھے کہ‘ مستقل نمازی جوتوں کے لیے کپڑے کی چھوٹی سی تھیلی بنوا لیں۔ نا کیوں؟ اللہ “مخیر حضرات“ کو لمبی عمر صحت کے ساتھ عطا کرے‘ یہ کام بھی انھی کے ذمے لگا دیتے‘ کیا خیال ھے؟ مزید فرماتے ھیں کہ یہ تھیلی یا تو گاڑی میں رکھ لیں یا جیب میں‘ اور اس میں جوتے ڈال کر مسجد کی ریک میں رکھ دیں۔ آگے نہیں بتایا کہ نماز کے بعد تھیلی اور جوتوں کا کیا کرنا ھے‘ نیز یہ بھی نہیں بتایا کہ بڑے سائز کے جوتے چھوٹی سی تھیلی میں کیسے آئیں گے؟ 

مخیر حضرات صفائی  کے لیے باقاعدہ عملہ رکھیں‘ ایک درخواست ھے‘ کہ پاور سکٹر پر ہاتھ ہلکا رکھیں‘ بجلی کی مشینوں سے صفائی نہ کرائیں۔

صفوں تک پہنچنے‘ اور صفوں سے نکلنے‘ مسجد کے اندر آنے اور باہر جانے کے لیے الگ الگ راستے ہوں۔ جاوید صاحب! یونہی کبھی گراف پیپر پر اپنی پسند کا نقشہ اِن تمام تجویز کردہ راستوں پر تِیر کے نشان لگا کر بنا ڈالیں، اور “لاکھوں آرکیٹیکٹس“ کو شرمندہ کر دیں۔ کسی بھی محلے کی مسجد لے لیں‘ وہ جو جائداد کے جھگڑے ختم  کرنے کے لیے بنا دی جاتی ھیں۔

مخیر حضرات خوشبو والی موم بتیاں فراہم کریں‘ چٹائیاں اور باسی دریاں خود سمجھدار ہیں‘ آگ نہیں پکڑیں گی۔ دمے کے مریض سانس درست کرنے کے لیے ایر فرشنر کے کش لگا لیں۔

 نمازی منہ میں خوشبو والی گولی رکھ کر نماز پڑھیں۔ یہ گولی اسی چھوٹی سی تھیلی میں رکھنی ہے نا؟ یا اللہ! مجھےمعاف کرنا

مشورہ دے رہے ھیں کہ تمام ملک کی مساجد کے لیے ایک بورڈ بنے‘ عملہ بھرتی ہو‘ شاندار ڈیزائین بناےَ جائیں‘ غالباً یہ بھی “مخیر حضرات“ نے کرانا ہے۔  نقشے کی منظوری "علما" دیں گے۔ 
تو “لاکھوں آرکیٹیکٹس“ کا کیا کریں؟ فرض کریں تمام علما متحد ہو جائیں‘ بورڈ بن بھی جاےَ‘ تو مسجد کے نقشے پر اوبجکشن لگانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جزباتی دشمنی سے تحفظ کس نے دینا ھے؟

اتنے مفید مشوروں کا شکریہ! بارش کا پہلا قطرہ آپ بنیں‘ بہت لوگ لبیک کہیں گے۔ آخر زید حامد صاحب نے بھی اپنے نظریے کے لیے عملی  قدم اٹھایا تھا۔

 نوٹ: یہ سب کچھ میں نے جاوید صاحب کے کالم میں املا کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے لکھا ھے۔ “مخیر حضرات“ ایک پروف ریڈر کا بندوبست بھی کر دیں۔

Post a Comment

0 Comments