ثبات وہم ہے یارو، بقا کسی کی نہیں
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
کرو نہ گلشن ہستی تباہ اس کے لئے
نہ ہاتھ آئے گی یارو ، صبا کسی کی نہیں
زمانہ گزرا کہ دل پر ہوئی تھی اک دستک
پھر اس کے بعد تو آئی صدا کسی کی نہیں
تمام دنیا کے قصوں سے یہ ملا ہے سبق
قصور سب ہے ہمارا خطا کسی کی نہیں
وفا ، خلوص ، محبت ، گناہ ، مکر و فریب
یہ لاعلاج ہیں سارے ، دوا کسی کی نہیں
مجھے تو لگتا ہے جیسے یہ کائنات تمام
ہے باز گشت یقیناً صدا کسی کی نہیں
بہت بھروسہ تھا ہمکو عدیل اپنوں کا
ہمارے کام تو آئی وفا کسی کی نہیں
0 Comments